The Duties of wife. بیوی کے فرائض



شوہر کے ذریعہ معاش کو پسند کرنا

ایسی خاتون کیلئے زندگی کے دو شیڈول ہونے چاہیئے ایک اپنے لئے اور ایک اپنے شوہر کے لئے،اس کے کام پر تنقید نہ کریں،بھلا اس کے کام میں کیا عیب پایا جاتا ہے؟ اگر وہ سستی کرتا یا آوارہ پھرتا تو کیا اچھا ہوتا ؟بلکہ آپ کو تو فخر کرنا چاہیئے کہ آپ کا ایسا شوہر ہے جو حلال روزی کی خاطر اپنی رات کی نیند تک اپنے اوپر حرام کردتا ہے اس کی لگن اور محنت کی آپ کو داد دینا چاہیئے، اس کو گھر کے دروازے تک مسکراکر خداحافظ کہنا چاہیئے۔

 ہرکسی کا ایک پیشہ ہوا کرتا ہے  اور ہر پیشہ کے کچھ لوازمات و ضروریات ہوتی ہیں، ایک  ڈرائیور ہے  کہ جو اپنی  عمر کا اکثر حصہ سفر میں گذار دیتا ہے  اور وہ دوسرے افراد کی طرح ہر رات،  اپنے گھر پلٹ کر نہیں آتا، ایک  چوکیدار ہے کہ جسے رات کے کچھ حصہ یا آپام رات، چوکیداری کرنی پڑتی ہے،ایک  ڈاکٹر ہے کہ جس کی پا س فارغ اوقات بہت کم ہوتے ہیں کہ جس میں  وہ اپنے بیوی بچوں کے ساتھ بیٹھے  یا سیر و تفریح کے لئے جائے،ایک   استاد یا دانشور ہے جسے رات کو ہرطور مطالعہ کرنا ہوتا ہے،کسی کے  کاروبار کا یہ تقاضہ ہوتا ہے کہ وہ زیادہ سفر کرے، ایک  تیل  فروش ہے اس سے تیل کی بو آتی ہے ،ایک  گاڑیوں کا میکنک ہے کہ ہمیشہ جس کا لباس تیل اور ڈیزل میں بھرا رہتا ہے ،ایک کوئلے کا کام کرتا ہے کہ جس کا لباس ہمیشہ سیاہ رہتا ہے کوئی رات کے ٹائم کارخانہ میں جاکر ڈیوٹی کرتا ہے وغیرہ وغیرہ۔
غرض !  بہت ہی کم ایسے مشغلے ہوتے ہیں کہ جن میں کسی طرح کا دردسرنہ ہو،بہر کیف !  انسان کو کام کرنا ہی پڑتا ہے کہ جس  کے سبب اس  دنیا کے کاروبار آگے بڑھتے رہیں،روٹی  پیدا کرنا آسان نہیں ہے،مرد کے پاس اس کے سوا کوئی چارہ نہیں ہے کہ وہ  مشکلات کا سامنا کرے  لیکن یہاں اس سے  بھی بڑی  مشکل سامنے  ہوتی ہے  اور وہ یہ کہ اس کی بیوی کی بڑبڑاہٹ اور اس کے کاروبار  پر تنقید اور اعتراض کرنا۔
عام طور پر خواتین کو ایسے  شوہر پسند ہوتے  ہیں جو  ہمیشہ وطن میں رہیں،اور رات  ہوتے ہی گھر لوٹ آئیں،اور ان کے  پاس فارغ اوقات بھی ہوں تاکہ ان کے ساتھ رات کو بیٹھے اورگردش و تفریح کے لئے بھی جاسکیں،اور ان کا پیشہ  صاف ستھرا ،آبرو مند  اور زیادہ در آمد والا ہو  لیکن افسوس کی بات یہ ہے کہ بہت سے مردوں کے کام ایسے ہوتے ہیں جو ان کی بیویوں  کی خواہش کی مطابق نہیں ہوتے۔
چنانچہ بعض گھروں میں یہیں سے اعتراضات شروع ہوجاتے ہیں،وہ ڈرائیور جس نے کئی دن رات بیابانون  میں زحمتیں  اٹھائیں ،سینکڑوں  مشکلات کاسامنا کیا جو  نہ اچھی  طرح  سو پایا ہے اور نہ ہی اسے پیٹ بھر کھانا نصیب ہوا ہے، بلکہ کئی دن رات کی مسلسل تھکاوٹ  کے بعد خستہ حالت میں گھر میں داخل ہوتا ہے تاکہ وہ کچھ دیر آرام کر سکے اور اپنے بیوی بچوں کی خیریت لے سکے  لیکن ابھی وہ  دروازہ سے اندر بھی  داخل نہیں ہوپایا کہ بیوی کی  بڑبڑاہٹ شروع ہوگئی:یہ کیسی زندگی ہے جو ہمیں میسر ہوئی ہے، مجھ  بدقسمت کو کئی بچوں کے درمیان چھوڑ کر نہ معلوم خود کہاں چلے جاتے ہیں؟سب کاموں کو مجھے ہی انجام دینا پڑتا ہے، ان شیطان بچوں سے میں تنگ آگئی ہوں، ڈرا ئیورینگ بلکل اچھا کام نہیں ہے، لہٰذا یا اپنے کام  کو تبدیل کردیجئے یا میرا فیصلہ! کیونکہ میں  آخر ی عمر تک اس طرح زندگی نہیں گذار سکتی۔
بے چارہ وہ مرد کہ جو ان اعتراضات،بہانہ بازیوں، اور بڑبڑاہٹ کے بعد پریشان حال اور خستہ افکار کے ساتھ گاڑی چلانے کے لئے جائے گاتو اب ایسے ڈرائیور اور اس کی گاڑی میں سوار مسافروں کے بارے میں تو آپ جانتے ہی ہیں؟
وہ ڈاکٹر جس نے صبح سے لے کر  آدھی  رات تک  سینکڑوں بیماروں کو دیکھا ہو جس کے دل و دماغ دونوں کام میں مشغول رہے ہوں  اگر وہ گھر میں بھی بیوی کے اعتراضات اور بڑبڑاہٹوں کی زد پر ہو تو اس کا کیا حال ہوگا ؟ وہ اس خستہ حالت اور پریشانی افکار کے ساتھ کیسے طبابت اور کسی کا  معالجہ کرسکتا ہے؟
وہ کاریگر یا مزدور جو ساری رات محنت کرتا رہا،جو ایک لمحہ بھی نہیں  سو  سکا،اور صبح سویرے  جب آرام کرنے گھر میں آتا ہے تو بیوی کے اعتراضات اور بہانے بازیاں  شروع ہوجاتی ہیں تو وہ کیسے دوبارہ شام کو کام پر جاسکتا ہے؟
وہ دانشور جسکا کام ہی  مطالعہ اور تحقیق ہو تو اگر اسکی بیوی اس  کے کام سے متفق نہ ہو اور اس کے کام پر اعتراض کرے تو وہ کیسے  کامیابی سے ہمکنار  ہو سکتا ہے؟
انہیں مواقع پر سمجھدار و عقلمند عورت اور نا سمجھ ،بیوقوف اور خود غرض  عورت کے درمیان فرق واضح ہوجاتا ہے۔
محترم خاتون! ہم  اس دنیا کے حالات کو اپنے رخ پر نہیں موڑ سکتے لیکن اپنے آپ کو دنیا کے حالات کے مطابق ڈھال سکتے ہیں،روزی اور رزق  کے حصول کی خاطر آپ کے شوہر کو کوئی نہ کوئی کام تو  ضرور کرنا پڑے گا اور ہر کام کے کچھ لوازمات اور ضروریات ہوتی ہیں، آپ اپنی  زندگی کو  اس کے پیشہ کے مطابق  منظم کر سکتی ہیں، ایسی صورت میں وہ بھی  اپنے کام  کو آزادانہ  جاری  رکھ  سکتا ہے  اور آپ بھی  آرام و سکون سے زندگی بسر کر سکتی ہیں،آپ صرف اپنے عیش و آرام کی فکر نہ کریں،بلکہ تھوڑا اپنے شوہر کے آرام کی بھی فکر کیجئے،آپ جانثاری اور فداکاری کیجئے،اپنے شوہر کی خدمت کیجئے،اگر آپ کے شوہر ڈرائیور ہیں اور کئی راتوں کے  بعدجب  وہ خستہ حال میں گھر آئیں تو آپ کھلے دل اور تازہ  مسکراہٹ کے ساتھ ان کا استقبال کیجئے، ان کی نسبت مہر و محبت کا اظہار کیجئے تاکہ انکی تھکاوٹ دور ہو جائے، ان پر  اعتراض  و تنقید مت کریں، انکے  پیشہ  کو بہانہ کی زد پر مت رکھیں،بھلا ڈرائیورینگ کرنے میں کون سا عیب ہے؟
 وہ آپ کے سکون و آرام کی خاطر اپنی راتیں اور دن بیابانوں میں گذار دیتا ہے لیکن آپ اس کا شکریہ ادا کرنے کے بجائے اس کے کام پر اعتراض کررہی ہیں؟ اور اسے گھر اور  زندگی سے  بیزار بنا رہی ہیں؟ اس کے کام میں کوئی عیب نہیں ہے، وہ معاشرہ کی خدمت کرتا ہے، رزق حلال کمانے کے لئے محنت کرتا ہے، اگر وہ  یہ راستہ اختیار نہ کرتا یا ناجائز کاموں کے پیچھے جاتا تو کیا اچھا ہوتا ؟ اس کے  کام میں کوئی برائی نہیں ہے برائی  تو آپ کی اس غلط  توقع میں ہے  کہ وہ ہر رات گھر آئے،برائی یہ ہے کہ آپ اپنے کو حالات کے مطابق نہیں ڈھال پارہی ہیں؟
کیا یہ بہتر نہیں کہ آپ خود اس قسم کی زندگی بسر کرنے  کی عادت ڈالیں اور ہنسی خوشی  زندگی بسر کریں اور جب آپ کا شوہر گھر لوٹ کر آئے تو  اس کا استقبال کریں اور اپنی میٹھی باتوں سے اسے مزید کام کرنے کی تشویق دلائیں اور جب وہ دوبارہ کام پر جانے لگے تو مسکراتے ہوئے اس کے ساتھ دروازہ تک جائیں اور اسے وداع کریں،کیا  آپ کی ایک خداحافظی اور مسکراہٹ  کے سبب دوبارہ گھر واپس آنے تک اس کا دل شاد و خوش نہیں  رہے گا؟
اگر آپ نے  ایسا کیا تو وہ زندگی، کسب و کام اور گھر سے مزید الفت کرنے لگے گا اور عیاشی کرنے کی فکر نہیں کرے گا اس کا ذہنی توازن درست رہے گا اسے کوئی حادثہ پیش نہیں آئے گا،گھر لوٹ کر جلد آئے گا اور آپ کے  آرام و سکون کی خاطر  پہلے سے  زیادہ محنت کرے گا۔
اگر آپ کا شوہر رات کو کارخانہ میں کام کرتا ہے،تو اس نے  آپ کے اخراجات کو پورا کرنے کے لئے اپنی رات کی نیند کی لذت کو ترک کیاہے، لہٰذا آپ اس کے مطابق زندگی گذارنے کی عادت ڈالئے اور اس سے ناراضگی کا اظہار مت کیجئے۔
اگر آپ تنہائی سے اکتاہٹ محسوس کرنے  لگیں تو اپنے کچھ کام رات میں  انجام دے سکتی ہیں،آپ رات  کے کچھ  حصہ  کو  سینے، پیرونے اور کتاب پڑھنےمیں  بسر کرسکتی ہیِں،جب آپ کا شوہر کارخانہ سے گھر  واپس آئے تو آپ  فوراً اس کے لئے  ناشتہ تیار کریں،اور ایک کمرے کو اس کے آرام کرنے کے لئے تیار کریں تاکہ وہ چین سے سو سکے، بچوں کو یہ عادت ڈالیں کہ وہ گھر میں شور شرابہ نہ کریں  اور انہیں یہ سمجھانے کی کوشش کریں کہ ان کا باپ رات بھر نہیں سویا ہے  اسے دن میں آرام کی سخت ضرورت ہے بلکہ آپ بھی یہ کوشش کریں کہ رات میں کم اور دن میں زیادہ آرام کریں اور اس کو تکلیف مت دیں تاکہ وہ سکون کے ساتھ سو جائے نیز آپ کو یہ بھی خیال رکھنا چاہیئے کہ آپ کا شوہر رات بھر نہیں سویا ہے اور دن اس کے لئے رات کی طرح ہے پس اسے اب آرام کرنے کی ضرورت ہے۔
ایسی خاتون کیلئے زندگی کے دو شیڈول ہونے چاہیئے ایک اپنے لئے اور ایک اپنے شوہر کے لئے،اس کے کام پر تنقید نہ کریں،بھلا اس کے کام میں کیا عیب پایا جاتا ہے؟ اگر وہ سستی کرتا یا آوارہ پھرتا تو کیا اچھا ہوتا ؟بلکہ آپ  کو تو فخر کرنا چاہیئے کہ آپ کا ایسا شوہر ہے جو حلال روزی کی خاطر اپنی رات کی نیند تک اپنے اوپر حرام کردتا ہے اس کی لگن اور محنت کی آپ کو داد دینا چاہیئے، اس کو گھر کے دروازے تک مسکراکر خداحافظ کہنا چاہیئے۔
اگر آپ کا شوہر ڈاکٹر ہے یا کوئی دانشور ،اور وہ  رات دن مطالعہ و تحقیق میں مصروف رہتا ہے اور سماج کے لئے مشقت کرتا ہے آپ کو  اس کی ہمت باندھنی چاہیئے آپ کو ایسے گراقدر شوہر پر فخر کرنا چاہیئے۔
البتہ یہ اس کے کام کی لوازمات میں سے ہے کہ اس کے پاس زیادہ فارغ اوقات نہیں ہیں،لیکن آپ اپنی زندگی کو اس کے کام کے مطابق ڈھال سکتی ہیں اور اس سے یہ توقع نہیں رکھنا چاہیئے کہ وہ اپنا کام چھوڑ دے اور آپ کی مرضی کے مطابق کام کرے ، آپ اسے بے فکر مطالعہ اور تحقیق کرنے دیں اور جب وہ کام میں مصروف ہو تو آپ اپنے گھر کے کام کر سکتی ہیں اور اس کے بعد کچھ وقت کتاب پڑھ سکتی ہیں،یا اس سے اجازت لے کر اپنے دوستوں یا رشتہ داروں کے گھر جاسکتی ہیں، لیکن یہ کوشش کریں جب اس کے آرام کا وقت ہو تو آپ گھر میں موجود رہیں اور اس کے گھر پہونچے سے پہلے گھر میں اس کی ضیافت کا سامان مہیا کرکے رکھیں، جب وہ گھر میں داخل ہو تو آپ مسکراتے ہوئے اس کا استقبال کریں اور اپنی نرم کلامی سے اس کی ذہنی تھکاوٹ کو دور کریں اور خبردار!آپ  اس کے کاموں پر اعتراض نہ کریں  اور اس کی تھکاوٹ میں مزید اضافہ کا باعث نہ بنیں۔
اور اگر آپ نے اس کی بہتر طریقہ پر خدمت کی تو گویا آپ نے اس کی ترقی اور عظمت کے اسباب فراہم کئے بلکہ آپ اس کے ساتھ معاشرہ کی خدمت میں بھی حصہ دار  رہیں گی اور ہر عورت کے اندر اتنی قابلیت اور لیاقت نہیں پائی جاتی کہ اسے ایسے  عظیم مردوں کی خدمت نصیب ہو پس آپ اپنے شوہر کی خدمت کرکے اپنی فداکاری، جانثاری اور نیک رفتاری  کو پایہ ثبوت تک پہونچا سکتی ہیں۔
محترم خاتون! کام کرنا کوئی عیب نہیں ہے چاہے جیسا کام ہو اور اسے کوئی بھی انجام دے ، بلکہ  کام نہ کرنا ، کاہلی و سستی اور ناجائز امور کے پیچھے دوڑنا  عیب ہے  بلکہ آپ کو  تو ایسے مرد کی قدر کرنا چاہیئے  کہ جو حلال روزی  حاصل کرنے کے لئے محنت کرتا ہے  اور اپنے  خون  کو پسینہ بنا کر  بہاتا ہے، آپ  کام اور پیشوں کے معاملات سے ناآشنا ہیں، اور یہ  خیال کرتی ہیں کہ کسی پیشہ کا تبدیل کرنا آسان کام ہے  .اصولاً اس کام میں کون سا  عیب ہے  کہ جو  آپ اسے تبدیل کرانے  پر اصرار کررہی  ہیں، تیل فروشی،کوئلہ فروشی اور موٹر وغیرہ سنوارنا  مثلاًکیا  کوئی براکام ہے؟  اور اس کام میں آپ جو عیب نکال سکتی ہیں وہ  فقط کپڑوں کا گندا ہونا ہے،اور اس کاحل بھی اتنا دشوار نہیں ہے، اگر آپ کے شوہر کے پاس  کام کرنے کے مخصوص کپڑے  نہ ہوں تو آپ  خوش زبانی کے ساتھ اس سے یہ کہہ سکتی ہو کہ وہ  ایک کام کا مخصوص لباس خرید لیں اور جلد ہی اسے نکال کر دھولیا کرے، غرض ! یہ اتنا حساس مسئلہ نہیں ہے کہ  جو اعتراضات اور بہانوں کا سبب بنے!

Comments